محمد شرافت علی
قادرالکلام شاعراور ’مستند‘ و’ معتبر‘صحافی سلیم شیرازی سے بالمشافہ ملاقات کی سعادت توہنوزنصیب نہ ہوسکی ہے، البتہ ایک بار موصوف کی زیارت کا موقع ضرور میسرآچکاہے۔یہ’دور کا جلوہ ‘اکبر الہ آبادی کے’جلوہ دیدارِ دہلی‘کی طرح نہیں کہ ’کیا بتلائیں کیا کیا دیکھا‘ لیکن سچ پوچھئے تواُن کے ’منہ کو اگرچہ لٹکا دیکھا‘۔ نثری زبان میں کہیں توان کی نازک مزاجی دیکھی ،میزبان پر برافروختگی کااظہارکرتے دیکھااور پھر موم کی طرح موصوف کو پگھلتے بھی دیکھا۔خدا جھوٹ نہ بلوائے کہ اورکچھ نہ دیکھا۔
علامہ سلیم شیرازی کی ’زیارت‘کے برسوں بعدان سے ٹیلیفونک رابطوں کا ایک سلسلہ ضرور قائم ہوا، لیکن یہ خاکسارکی بدقسمتی ہی ہے کہ ان سے ملاقات کامرحلہ ہنوز نہ آسکاہے۔ یوں ان کے فیض یافتگان کی فہرست میں جگہ پانے کی آرزوپوری ہوپانے کی امیددم توڑتی چلی جارہی ہے!۔وہ بھی تب جبکہ سلیم شیرازی ایران کے شہر’شیراز‘میں نہیں رہتے،بلکہ اسی دہلی میں مقیم ہیں،جو ناچیزکابھی مستقرہے۔ چند میل کی مسافت کے باوجودان سے نہ مل پاناواقعی شرمندہ کرنے والی بات ہے!۔
اب اسے اپنی کج روی کہوں ،کوتاہی قرار دوں یاکم ظرفی کہ عہد حاضر کے زندہ دل شاعراورمعتبرو بزرگ صحافی جناب سلیم شیرازی کی ہزارخواہشوں کے باوجوداِن سے’ایک عدد ملاقات‘کی صورت نہ نکل سکی اور یوں دہلی میں لکھنوی تہذیب کی عمدہ نشانی قرار پانے والے جید قلمکارسے روبروہوکریعنی انگلی کٹوا کر شہیدوں(شاگردوں) میں نام لکھوانے کا شرف حاصل نہ ہوسکا۔
حالانکہ سلیم شیرازی دہلی کے ان چنندہ قلم کاروں میں سے ایک ہیں، جن کے درجنوں شاگرد فی الوقت یہاں کی وادی اردو صحافت میں میرکارواں کے طور پر اپنی صحافتی سرگرمیوں کو انجام دے رہے ہیں۔ یہ موقع اس کا نہیں کہ ان کے شاگردوں کی فہرست سازی کی جائے۔ برسبیل تذکرہ یہ اس لئے بتایا گیا تاکہ موصوف کی بلندقامتی کا قارئین کو اندازہ ہوسکے!۔
سلیم شیرازی کو استاد شاعر کے طورپر اولیت دی جائے یا معتبر ومستند صحافی کی حیثیت سے انھیں شمار میں لاجائے،یہ فیصلہ کرنامیرے لئے بہت مشکل ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ ان کی ادبی اور صحافتی سرگرمیاں یکساں طور پر دونوں شعبوں کو تندرستی وقوت بخش رہی ہیں، بلکہ اس بنا پر بھی کہ دونوں ہی شعبہ ہائے حیات میں ان کی عظمت مسلم ہے۔ اسی طرح یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ سلیم شیرازی کو دہلی کا نمائندہ شاعر وصحافی قرار دیاجائے یا لکھنوی تہذیب کا جیتاجاگتانمونہ۔ ویسے بہتر تو یہی معلوم ہو تا ہے کہ موصوف کو دہلی اور لکھنوکی تہذیبوں کا ’ مجموعہ‘ سمجھ لیاجائے۔
جس طرح گنگا اور جمنا کے سنگم پر غسل فرمانے والے برادرانِ وطن کا عقیدہ ہے کہ سنگم پر اشنان کرنے سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں،ٹھیک اسی طر ح میرایہ عقیدہ ہے کہ لکھنواوردہلی کے تہذیبی سنگم میں’ ا شنان‘ کرکے یعنی سلیم شیرازی سے قرب حاصل کرکے آپ اپنی ادبی وصحافتی زندگی کے گناہوں کی معافی کی صورت پیدا کرسکتے ہیں!۔
سلیم شیرازی یکم جنوری 1949کو لکھنو میں ضرورپیداہوئے مگر نوخیزی ،نوجوانی میں اور جوانی، بزرگی میں یہیں بدلی۔ لکھنو سے دہلی مراجعت کرتے ہوئے خود سلیم شیرازی نے بھی یہ نہ سوچا تھا کہ دہلی سے ان کی محبت اس قدر بلیغ ہوجائے گی کہ وہ دہلی کو وطن ثانی بنالیں گے۔ بہ قول خود
سنگ اٹھائے ہوئے پھرتی ہیں یہاں بھی گلیاں
ہم نے سوچا نہ تھا اسی شہر میں بس جائیں گے
سچی بات تو یہ بھی ہے کہ تقریباً 40-45 برسوں کا طویل عرصہ سلیم شیرازی نے دہلی میں’پریم نگر کے باسی‘ کی طرح گزار دیا ۔یہی وجہ ہے کہ حقیقت سے ناآشناایسے لوگ بھی ہیں جوانہیں اب دہلوی تہذیب کا نمائندہ شاعر بھی قرار دینے لگ گئے ہیں، جبکہ سچائی یہ ہے کہ سلیم شیرازی دہلی میں لکھنوی تہذیب کی بخوبی نمائندگی کررہے ہیں۔ صاف صاف لفظوں میں یہ کہنا مناسب ہوگاکہ موصوف دہلی میں لکھنوی تہذیب کے سفیر کی ذمہ داری بہ حسن وخوبی نبھا رہے ہیں۔
جیساکہ عرض کیا جاچکا ہے کہ سلیم شیرازی بنیادی طور پر لکھنوسے تعلق رکھتے ہیں لیکن زندگی کا بیشتر حصہ انھوں نے دہلی میں گزارااور یوں غریب الوطنی کا یہ سفر اب بھی جاری ہے۔ اوائل عمری میں ہی موصوف دہلی منتقل ہوئے ۔ دہلی یونیورسٹی کے دہلی کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں وادی صحافت میں انھوں نے قدم رکھا۔ اپنے طویل صحافتی کریئر کے دوران موصوف دہلی کے درجنوں بڑے اخباروں میں ذمہ دار عہدوں پر فائز رہے ۔جن قابل قدر اخباروں سے موصوف کی ماضی کے دنوں میں وابستگی رہی، ان میں فیصل جدید،روزنامہ پرتاپ، مشرقی آواز اور روزگارسماچار بطور خاص قابل توجہ ہیں۔ علاوہ ازیں موصوف نے ہندی اور انگریزی صحافت میں بھی زورآزمائی کی اور کئی اہم اداروں سے برسوں ان کی وابستگی رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ انگریزی اور ہندی صحافت سلیم شیرازی کوبرداشت کرنے کا متحمل نہ ہوئی اور اس طرح انھوں نے متذکرہ دونوں زبانوں کی صحافت سے خود کو الگ کرلیا۔
سلیم شیرازی نے صحافت کاتقدس وبھرم دونوں قائم رکھا۔ مادی فائدوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے انہوں نے قلندرانہ شان کے ساتھ صحافتی قدروں کو فروغ دینے کی کوشش کی،جس کاتذکرہ موصوف سے قربت رکھنے والے احباب ہی نہیں کرتے بلکہ جو کوئی بھی’ صحافت شناس‘ ہے،وہ اس سچائی کا معترف ہے۔ میری نظرمیں یہی وہ نعمت ودولت ہے،جو انہیں حاصل ہوئی،اس کے سواصحافت نے انہیں کچھ بھی نہیں دیا!۔
سچی بات تو یہ ہے کہ عہدحاضر میں صحافت کوبالخصوص اردوصحافت کوبالعموم لوگوں نے آگے بڑھنے اورشاہراہِ ترقی پر محض قدم بڑھا نے کاوسیلہ بنایاہواہے۔ ایسے صاحبان کی اِس وادی میں کمی نہیں جو درحقیقت’گندم نماجو فروش‘کہلانے کے لائق ہیں۔ خاص طورسے بیسویں صدی کی آخری 5دہائیوں کا سرسری طورپرجائزہ لینے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس طرح زندگی کے جملہ شعبوں میں مادیت کا غلبہ بڑھا ، اسی طرح شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والی ہستیاں بھی مادی فوائد کے حصول کے لیے اخلاقیات کی مٹی پلید کرنے میں لگی ر ہیں۔ چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سلیم شیرازی نے ارسطو کے اس قول کو جھٹلا دیا ہے کہ ’انسان ایک سماجی ذی روح ہے‘۔ وہ یوں کہ سماجی برائیوں، صحافتی بداعمالیوں اور فن لطیف سے وابستہ افراد کی بے راہ رویوں کاسلیم شیرازی نے کوئی اثر قبول نہیں کیا۔ اس کے برعکس انھوں نے منفرد انداز کی خاکسارانہ زندگی گزار کر آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسی نظیر قائم کی، جس پر چل کر آدمی انسان بن سکتا ہے۔
فی الوقت موصوف پی آئی بی کے علاوہ آل انڈیاریڈیو اورڈی ڈی نیوزسے وابستہ ہیں۔ سلیم شیرازی کے لیے یہ ادارے نہ صرف یہ کہ اوقات گزاری کا اچھا ذریعہ ثابت ہوئے بلکہ بطور پیشہ یافت کی جو صورت یہاں نکل آئی، وہ غنیمت سے کم نہیں، کیوں کہ قلندرمزاجی کے ساتھ زندگی گزارنے والے صحافیوں کے لیے حال کے دنوں میں جس طرح اردوصحافت کا دامن تنگ ہوچکاہے اور جس طرح صحافت بلیک میلنگ کا استعارہ بن کر رہ گئی ہے، سلیم شیرازی کے لیے یہ ادارے باعزت زندگی گزارنے کا اہم وسیلہ قرار پاتے ہیں۔ آل انڈیا ریڈیو، دوردرشن یاپبلک انفارمیشن بیورو بے شک سرکاری ادارے ہیں، جہاں حکومت وقت کی اچھی یا بری خبروں کی تشہیر کرناہوتی ہے،لیکن یہ ادارے ان معنوں میں غنیمت کہے جاسکتے ہیں کہ یہاں صحافتی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کااس طرح استحصال نہیں ہواکرتا جس طرح کی روایت اردو کے روایتی صحافتی اداروں کی شناخت رہی ہے!۔
شاید یہی وجہ ہے کہ سلیم شیرازی یک نفری خطوط پر منظر عام پر آنے والے اخبارات و رسائل سے وابستہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنی قلندرانہ روش پر پوری آزادی کے ساتھ قائم ہیں اور اب بھی ان کی صحافتی سرگرمیاں صحافت کے اصول و آداب کو نباہنے کا ذریعہ ثابت ہورہی ہیں۔
بطورصحافی موصوف نے زندگی کے تلخ و شیریں تجربات و مشاہدات کا جونچوڑ جمع کیا ہے، اسے صفحہ قرطاس پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلیں یہ جان سکیں کہ جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا ہورہاتھا اورجب دنیا نئے انکشافات اور تجربات سے ہم آہنگ ہورہی تھی تو اردو کے ورکنگ جرنلسٹ نے نئی اختراعات سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی لگاتار کوشش کس کس انداز میں کی۔
سلیم شیرازی نے اس عہد میں صحافت سے رشتہ جوڑا جب اردو میں خبر رساں ایجنسیوں کا کوئی تصور نہیں تھا، ای میل کی سہولت نہیں تھی۔ انٹرنیٹ نے اپنی موجودگی درج نہیں کرائی تھی۔سائبراسپیس کس چڑیاکا نام ہے،یہ کسی کو پتہ نہیں تھا۔ قلم اور کاغذ صحافت کے بنیادی ستون تھے، جس کے بغیر اب صحافت ہورہی ہے۔ سلیم شیرازی نے بدلتے عہد کو قریب سے دیکھا ہی نہیں بلکہ تغیر وتبدل سے خود ہم آہنگ کرنے کی بھی پوری پوری کوشش کی ۔اسی کوشش کا یہ نتیجہ ہے کہ 70-71 برس کی عمر میں بھی موصوف ازکاررفتہ تصور نہیں کیے گئے بلکہ موصوف متحرک بھی ہیں، فعال بھی اور برسرخدمت بھی۔
سلیم شیرازی کی یہی خوبی انھیں دوسروں سے ممتاز قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ دہلی کے صحافتی حلقوں میں ان کے شاگردوں کی موجودگی کا وسیع حلقہ یہ ظاہر کرتاہے کہ انھوں نے ایک نسل کی ذہنی تربیت کا جو فریضہ انجام دیا، وہ اپنے آپ میں ایک فرد کو انجمن بنانے کے لیے کافی ہے۔
ایک ایماندار اورفرض شناس صحافی جب ایک کہنہ مشق شاعر بھی ہو تویہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ سونے پر سہاگا والی کیفیت پیداہوجاتی ہے۔سلیم شیرازی درحقیقت صحافت اور ادب کے درمیان عہد حاضر میں ایسے پل کا کام کررہے ہیں جس پر چلتے ہوئے معیاری اردو صحافت کے فروغ کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔
جب ہم تھوڑا ٹھہر کر عہد حاضر کی اردو صحافت پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑاتے ہیں اور مروجہ عصری صحافت کی حقیقی تصویر کو دیکھتے ہیں تو نہایت افسوس کے ساتھ یہ رائے قائم کرنے پر ہمیں مجبور ہونا پڑتا ہے کہ صحافت اور ادب کے درمیان برسوں سے پائی جانے والی ہم آہنگی تقریباً مفقود ہوچکی ہے۔ حالانکہ اردو صحافت کا ماضی بڑے ادیبوں وشاعروں کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے لیکن عہد حاضر میں آپ کسی بھی ادارے پر ایک طائرہ نگاہ دوڑالیجئے، ایسی شخصیتیں شاید ہی نظرآئیں جو حقیقی معنوں میں ادب اورصحافت دونوں شعبوں میں یکساں طور پر مقبول بھی ہوں، معروف بھی ہوں اور قابل افتخار بھی!
بحیثیت شاعرسلیم شیرازی نے اس عہد میں اپنی موجودگی درج کرائی، جب دہلی میں استادشاعرمشیرجھنجھانوی، استادرسا اور گلزاردہلوی کے علاوہ امیرقزلباش، مخمورسعیدی، راجنارائن رازاور منچندا بانی جیسے قادر الکلام شعرا فن کاری کے چراغ روشن کررہے تھے۔
سلیم شیرازی کے لیے اس دور میں خود کو منوانا آسان نہیں تھا لیکن انھوں نے اپنے ساتھ لائی ہوئی لکھنوی تہذیب کی بدولت دہلی کے شعری ایوانوں کو منور کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے سلیم شیرازی دہلی کے منفرد اور ممتاز شعرا کی حیثیت سے نہایت تیزی کے ساتھ اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
دراصل سلیم شیرازی کی ایک خوبی یہ بھی رہی کہ انھوں نے فن کی عظمت کو شعری قالب میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی۔ کمال ریاضت کانتیجہ یہ سامنے آیا کہ شیرازی کی شاعری دہلی اور لکھنوی کی تہذیب کے درمیان ایک سفیر کے طور پر اپنی شناخت منوانے میں کامیاب رہی۔ سلیم شیرازی دہلی کے مشاعروں میں متواتر شرکت کرتے رہے اور اپنے منفرد انداز کی بدولت اہل ذوق سے دادوصول کرتے رہے۔ استادرسا، مخمور سعیدی اور اس عہد کے دوسرے شعرا کے ساتھ جس انداز میں سلیم شیرازی نے دہلی کے مشاعروں کو رونق بخشی، وہ بہت ہی کم لوگوں میں حصے میں آتا ہے۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سلیم شیرازی کے چنداشعار یہاں نقل کردیے جائیں جس سے ان کے فکر وفن کو سمجھنے میں تھوڑی مدد مل سکے ۔
یاد کے موسم نے کیا جادو کیا
ہجر کی شب بھی سہانی ہوگئی
٭٭٭
بڑی ہی اندھیری ڈگر ہے میاں
جہاں ہم فقیروں کا گھر ہے میاں
٭٭٭
گھر کے گلدان میںکچھ پھول سجا لیتے ہیں
ہم بھی کچھ طور سے موسم کا مزہ لیتے ہیں
٭٭٭
انھیں یہ ضد ہے کہ ہم حق بیانیاں نہ کریں
ہمیں یہ فکر کہ سچ کو نہ سرجھکاناپڑے
٭٭٭
زخم کی فصل ہی ہر سال مقدر ٹھہری
جانے ہم کیسے فقیروںکی دعا لیتے ہیں
٭٭٭
جب سے کچھ اس سے کچھ من مٹاو سا ہے
سارا دل جیسے گھاو گھاو ساہے
٭٭٭
اُف وہ ناراض سی شناسائی
بے رخی میں بھی ایک لگاو¿ساہے
٭٭٭
اس کی شیریں کلامیوںمیں بھی
ایک عجب بانکارکھ رکھاو¿ ساہے
٭٭٭
انگ انگ گلال ہوگئے
تم تو اب کمال ہو گئے
٭٭٭
وضع داریاں بھی کیا کریں
آئینوں میں بال ہو گئے
٭٭٭
اے پنچھیو!تم ہی کوئی صورت نکالنا
صیاد بھول جائے اگر جال ڈالنا
٭٭٭
اب ہاتھ کی لکیریں بھی سچ بولتی نہیں
اس بار دیکھ بھال کے سکہ اچھالنا
٭٭٭
سادگی کی لوگوں کو اب کے یوں سزا دینا
روشنی اگر مانگیں ،بستیاں جلا دینا
٭٭٭
کاش ان کے جذبوں کی شدتیں ہمیں مل جائیں
ہم نے جن سے سیکھا تھا،کشتیاں جلا دینا
٭٭٭
تم میںرہنمائی کے سارے گن سلامت ہیں
تم کو خوب آتا ہے آگ کو ہوا دینا
٭٭٭
آزار یہ خود پالا ہے آشفتہ سری کا
الزام کسے دیجئے تنہا سفری کا
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اچھی شاعری دلوں پر حکمرانی کرتی ہے۔سلیم شیرازی کی شاعری اس ذیل میں معتبر جگہ پانے کی مستحق ہے،جنہوں نے شاعری کے ذریعہ اہل ذوق کے دلوں پر حکمرانی کی کامیاب سعی کی ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ انہیں حیات ِخضرنہ سہی،مگرلمبی عمر ضروربخشے تاکہ ہم ان کی شاعری سے حظ اُٹھاتے رہیں۔
حرف آخرکے طورپرجناب ظفرانور شکرپوری کاتذکرہ نہ کرنااوران کا شکریہ ادا نہ کرنا بھی بڑی زیادتی ہوگی،جو خاکسارکے رفیق کار بھی ہیں اورشیرازی صاحب کے بڑ ے مداح بھی۔ یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ موصوف کی تحریک اور مسلسل تقاضوں کاہی یہ ثمرہ ہے کہ سلیم شیرازی صاحب کے حوالے سے یہ تحریر منصہ شہود پرآسکی ہے،جس کا کریڈٹ انہیں دیا جانا ضروری ہے!۔
(مضمون نگار ہندوستان ایکسپریس کے نیوز ایڈیٹر ہیں، صحافتی حلقوں میں ’شاہدالاسلام ‘کے نام سے جانے جاتے ہیں)