نئی دہلی: اردو ادب کے معروف نقاد اور شاعر ڈاکٹر شارب ردولوی کا لکھنو میں انتقال ہوگیا۔وصوف کچھ عرصہ سے علیل تھے۔ ڈاکٹر شارب ردولوی کا شمار اردو کے ان ممتاز قلمکاروں میں ہوتا ہے،جنہوں نے” نہ ستایش کی تمناکی” اور” نہ صلے کی پروا "۔

موصوف کااصل نام مسیب عباسی تھا،لیکن اپنے قلمی نام شارب ردولوی کے ذریعہ جانے اور پہچانے گئے۔ یکم ستمبر 1935کو ردولی اترپردیش کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اور دادا کا شمار فارسی اور عربی کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔ شارب ردولوی نے لکھنؤ یونیورسٹی سے اردو ادبیات کی اعلی تعلیم حاصل کی۔ پروفیسر سید احتشام حیسن کی نگرانی میں اپنا تحقیقی مقالہ ’ جدید اردو ادبی تنقید کے اصول ‘ کے موضوع پر لکھا۔ شارب ردولوی کے اس مقالے کا شمار اہم ترین تنقیدی کتابوں میں کیا جاتا ہے۔
شارب ردولوی نے دہلی یونیورسٹی کے دیال سنگھ کالج سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیاجہاں انہیں اردو کے استاد کی حیثیت سے خدمت کا موقع ملا ۔ 1990 میں انہوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے وابستگی اختیار کی 2000 میں یہیں سے سبکدوش ہوئے۔
شارب ردولوی کے ادبی سفر کا آغاز شعر گوئی سے ہوا البتہ انہوں نےتنقید نگاری کو اپنی علمی دنیا آباد کرنے کا وسیلہ بنایا۔ شارب ردولوی کی اہم تصنیفات میں” مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر”،”آزادی کے بعد دہلی میں اردو تنقید”،”اسرار الحق مجاز:ہندوستانی ادب کے معمار”،”جدید اردو تنقید،اصول و نظریات”،”جگر : فن اور شخصیت”،”مرثیہ اور مرثیہ نگار”،”مطالعہ ولی”،”تنقیدی عمل”،”تنقیدی مباحث”اور”تنقیدی مطالعے” شامل ہیں۔