نئی دہلی (یو این آئی)نئی سوچ اور اختراعی ذہن اپنانے پر زور دیتے ہوئے معروف شاعر ا،فسانہ نگار اور بہار اردو اکیڈمی کے سابق سکریٹری مشتاق احمد نوری نے کہاکہ ہر ذی شعور انسان کو سوال کرنا چاہئے اس سے مختلف جہات کے دروازے کھلتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے کبیر الدین فوزان کے شعری مجموعہ ’گلگشت خیالات‘کے رسم اجراء کی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہاکہ وہ قوم گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گم ہوجاتی ہے جو سوال نہیں کرتی۔ سوال وہی کرسکتا ہے صاحب علم اور صاحب بصیرت ہوگا اور گر ہمارے اندر سوال پیدا نہیں ہورہا ہے تو اس مطلب یہ ہے کہ ہم میں علم کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہاکہ حضو اکرم سے سوال بھی سوالات کئے گئے تھے۔ سوال تو ان تیمیہ سے بھی کئے گئے تھے۔ انہوں نے صحیح سوال کرنے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ منفی چیزیں جلد پھیل جاتی ہیں جب کہ مثبت چیزوں کو پھیلنے میں دیر لگتی ہے۔ انہوں نے مولانا فوزان کی شخصیت کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے کئی معاملے پر آنکھ کھولنے والے سوالات کئے ہیں۔معروف ادیب و نقاد حقانی القاسمی نے کہا کہ انحرافی اذہان کو دقیانوسی معاشرہ کبھی قبول نہیں کرتا۔ وہ صرف حسب روایت بیانیہ کو قبول کرتے ہیں اور اس سے ہٹ کر کوئی چیز ہے تو اسے کوئی قبول نہیں کرتا۔ انہوں نے کہاکہ جب تک بیانیہ میں تبدیلی نہیں آئے گی اس وقت وقت ہمارا معاشرہ نئی چیز کو قبول نہیں کرے گا جس کی وجہ سے نئی سوچ بھی پیدا نہیں ہوگی۔ انہوں نے کبیر الدین فوزان کی کتاب اور ان کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ مولانا فوزان سے اختلاف یا اتفاق کیا جاسکتا ہے لیکن انہوں نے جو سوالات قائم کئے ہیں ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے سوالات کے جوابات عقل سے دئے جاتے ہیں کیوں کہ آپ ہر سوال کا جواب قرآن و حدیث سے نہیں دے سکتے کیوں کہ آپ کا مدمقابل قرآن پر یقین نہیں رکھتا۔ تو آپ کو عقل سے جواب دینا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ مولانا فوزان جنونی انسان ہیں اس لئے وہ ڈگر سے ہٹ کر سوچتے ہیں، وہ اختراعی ذہن کے مالک ہیں اور ان کی کتابیں سوالات کی کھڑکیاں کھولتی ہیں۔
آل انڈیا تنظیم علمائے حق کے قومی صدر مولانا اعجاز عرفی قاسمی نے کہاکہ مولانا کبیر الدین فوزان کی کتاب‘گل گشت خیالات‘ ان کے شاعرانہ خیالات اور جذبات کا ترجمان ہے۔ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ دیوبند صرف مذہبی علوم سے ہی واقف نہیں کراتا بلکہ دوسرے علوم کی بھی ترغیب دیتا ہے۔ مولانا کی وسیع نظری اور فکری تفرادات اسی ادارے کی مرہون منت ہے۔مولانا کبیر الدین فوزان نے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ آپ لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہورہی ہے۔ آپ نے میری کتابوں کو سراہا اور قابل توجہ سمجھا ہے اس کے لئے شکریہ۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کے استاذ ڈاکٹر خالد مبشر نے کہا کہ مولانا کبیر الدین فوزان کی کتاب اور تحریریں سچا طالب علم بننے، اختلافات کے ساتھ غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مولانا کے شعری مجموعے میں تمام فنی لوازمات کا خیال رکھا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی تحریریں سوال کرنا سکھاتا ہے۔
یو این آئی کے سینئر صحافی عابد انور نے کہا کہ اختلافات کرنے کا ہر کسی کو حق ہے لیکن وہ اختلاف دلائل کی روشنی اور تہذیب کے دائرے میں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ اختلافات ہونا الگ بات ہے اور دشمنی ہونا دوسری بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختلافات کو قبول کرتے ہوئے ہمیں سچ کا ساتھ دیناچاہئے۔
سیمانچل کے معروف افسانہ نگار احسان قاسمی نے مولانا فوزان کی شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ ان کی نظم متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے کئی نظموں کا ذکر کیا اور ان کی انفرادیت پر روشنی ڈالی۔ ساتھ انہوں نے کہاکہ ان کی نظم میں اعلی ظرافت کے نمونے ملتے ہیں۔معروف شاعر مجیب قاسمی نے اپنی نظم پیش کرکے مولانا کبیر الدین فوزان کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس کے علاوہ رضوان احمد ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی نے فوزان صاحب پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ڈاکٹر رضوان شاہد اور افتخار الزماں نے بھی ان کی کتاب کے حوالے سے گفتگو کی۔ نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ڈاکٹر نعمان قیصر نے مولانا فوزان کا تعارف پیش کیا اور ان کی عملی کمالات اورتصنیفات اور تحریروں پر روشنی ڈالی۔ عمار جامی نے شکریہ ادا کیا۔