مونگیر (پریس ریلیز)ملک کے 77ویں یوم آزادی کے موقع پر امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ کے امیر شریعت مفکر ملت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم،سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر نے اپنے پیغام میں ملک کے تمام شہریوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی سالمیت اور ترقی کے لیے تنوع اور تکثیریت لازمی ہے۔اس لیے آئین کا تقاضہ ہے کہ ملک کے ہر شہری کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے اور تعلیم و معیشت سمیت ہر میدان میں ترقی کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔
امیر شریعت نے اپنے پریس بیانیہ میں کہا کہ ہمیں اپنی تاریخ نہیں بھولنی چاہیے کہ ہند وستان کی آزادی میں بلا تفریق مذہب و ملت ملک کےسبھی شہریوں نے عموما اورخصوصاً مسلمانوں نے خوب بڑھ چڑھ کر اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کیا ہے۔
1700 میں مسلمانوں کے نظام کے تحت سرزمین ہند تنِ تنہا دنیا کی 22.6 فی صد دولت پیدا کرنے والا ملک تھا، جو تمام یورپ کے مجموعی حصے کے تقریباً برابر تھی۔ لیکن یہی حصہ سنہ 1952 میں گھٹ کر صرف 3.8 فیصد رہ گیا۔ 20ویں صدی کی شروعات میں وہی سرزمین ہند کا جی ڈی پی (گھریلو مجموعی پیداوار) 22.6 سے گھٹ کر 3.8 ہو گیا تھا اور فی کس آمدنی کے حساب سے دنیا کا سب سے غریب ملک بن گیا تھا۔ ایسی بد حالی کے زمانہ میں بھی مسلمانوں نے ملک کی خاطر اپنا مال خرچ کرنے سے دریغ نہیں کیا۔
سوراشٹرا کے دھوراجی قصبے سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر میمن عبدالحبیب یوسف مارفانی نے تقریباً ایک کروڑ روپے انڈین نیشنل آرمی کو عطیہ کر دیا۔جو اس زمانہ کے لحاظ سے بے پناہ خطیر رقم تھی۔اسی دوران 1915 کے آغاز میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل رنگون اور سنگاپور میں تعینات بلوچ ریجمینٹ اور پانچویں لائٹ پیادہ دستہ سنگا پور نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جس کے نتیجہ میں دو افسروں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔43 افسروں کو گولی سے بھون دیا گیا اور باقی فوجیوں کو کالے پانی کی سزا دے کر اس بغاوت کو کچلنے کی کوشش کی گئی۔سیف الدین کچلو کو امرتسر میں مظاہرے سے روکنے کے لیے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔معروف ادیب خوشونت سنگھ نے لکھا ہے کہ انڈیا کی آزادی مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی ہے، کیونکہ کل آبادی کے 24 فیصد تناسب کے لحاظ سے آزادی کی جدوجہد میں ان کی حصہ داری بہت زیادہ تھی۔ہامس لائیو کی رپورٹ کے مطابق، ہند کی آزادی کے لیے انگریزوں کے خلاف جدو جہد کرنے اور قربانیاں دینے والوں میں سے 65 فیصد مسلمان تھے۔1750 کی دہائی میں، نواب سراج الدولہ پہلے بیدار مغز ہندی حکمراں تھے، جنہوں نے انگریزوں کے خلاف آزادی کا بگل بجایا تھا۔انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ آزادی میسور کے حکمراں حیدر علی اور ان کے بیٹے ٹیپو سلطان نے 1780 اور 90 کی دہائی میں لڑی تھی۔بیگم حضرت محل نے سنہ 1857 ء میں چنہٹ کے مقام پر انگریز حکمرانوں سے لوہا لیتے ہوئے سر ہنری لارنس کو گولی مار کر ہلاک کیا اور برطانوی فوج کو شکست دی۔1857 کی عظیم بغاوت میں 225 مسلم خواتین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔مولوی محمد باقر، ایک عالم اور پہلے صحافی تھے جنہیں 1857 میں بغاوت کے بعد پھانسی دی گئی۔
27 برس کی عمر میں اشفاق اللہ خان وہ عظیم مجاہد آزادی تھے جنہیں برطانوی راج کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی۔نیتا جی سبھاش چندر بوس کے ذریعہ لگایا گیا حب الوطنی کا نعرہ "جئے ہند” زین العابدین حسن نے دیا تھا۔یوسف مہر علی نے کویٹ انڈیا مومنٹ کا نعرہ دیا تھا۔آج کے بھارتی پرچم ترنگا کو اس شکل میں لانے والی خاتون ثریہ طیب جی تھیں۔1857 کی دوسری جنگ آزادی کی تحریک کے بعد مسلم رہنماؤں نے ملک بھر میں تعلیمی ادارے قائم کرکے مزاحمت کی حکمت عملی تبدیل کی۔ریشمی رومال تحریک جسکا مقصد افغانستان میں حکومت قائم کر کے انگریزوں سے ہند کو آزاد کرانا تھا۔راجہ مہیندر پرتاب اس تحریک کے تحت افغانستان میں قائم جلا وطن حکومت کے صدر بنائے۔ حضرت مولانا عبیداللہ سندھی صاحبؒ وزیر داخلہ اور حضرت مولانا پروفیسر نواب برکت اللہ بھوپالیؒ اس کے وزیر اعظم بنائے گئے تھے۔یہ تحریک علماء کرام کے ذریعہ شروع کی گئی تھی جس کی قیادت شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن صاحبؒ فرما رہے تھے۔
مہاتما گاندھی کے شریک کار گجرات کے رہنے والے جسٹس عباس طیب جی، انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کے پہلے مسلمان صدر تھے۔ جسٹس طیب جی کو 1930 میں گاندھی جی کی گرفتاری کے بعد نمک ستیہ گرہ کی قیادت کرنے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔مولانا ابوالکلام آزاد،محمد علی جوہر، شوکت علی، ڈاکٹر مختار انصاری، حکیم اجمل خان، مولانا محمود حسن وغیرہ انڈین نیشنل کانگریس کی تحریک آزادی میں شامل تھے اور انہوں نے برطانوی استعمار کے خاتمے کے لیے ہر ممکن قربانی دی۔خان عبدالغفار خان ایک پشتون مجاہد آزادی تھے جنہوں نے ہند میں برطانوی راج کے خاتمے کے لیے مزاحمتی تحریک خدائی خدمتگار کی بنیاد رکھی۔انہیں عدم تشدد کے اصول اور گاندھی جی کے ساتھ دوستی کی وجہ سے سرحدی گاندھی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔مولانا مظہر الحق کے کارناموں میں اہم کارنامہ صداقت آشرم کا قیام ہے۔ یہ 32 ایکڑ زمین پر قائم کیا گیا تھا۔ اس میں بہار ودیا پیٹھ، ڈاکٹر راجندر پرسا د میوزیم ، مولانا مظہر الحق لائبریری، کملا نہرو ششووہار اور دیگر ادارے ہیں۔ صداقت آشرم اس وقت بہار کانگریس کمیٹی کا صدر دفتر بھی ہے۔ صداقت آشرم دراصل تمام تحریکوں کا گہوارہ بن گیاتھا۔ سارے بڑے لیڈر یہیں قیام کرتے تھے۔ آزادی کے متوالوں کی سرگرمیوں کا بہار میں سب سے بڑا مرکز تھا اور ہند کی تعمیر اور آزادی سے متعلق تمام فیصلے یہاں کئے جاتے تھے۔ حتی کہ گاندھی جی اور ان کی اہلیہ کستوربا گاندھی کا قیام بھی یہاں ہوتا تھا۔اس کی بنیاد مولانا مظہر الحقؒ نے 1917میں رکھی تھی۔ڈاکٹر راجیندر پرساد نے بھی اپنی زندگی کے آخری ایام اسی صداقت آشرم میں گزارے ہیں۔