غزہ:اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے بڑے زمینی حملے سے قبل اب تقریبا 10 لاکھ فلسطینی شمالی غزہ سے جنوب کی جانب نقل مکانی کر چُکے ہیں۔ ذہن نشیں رہے کہاسرائیل کی جانب سے غزہ سے نکل جانے کی دھمکی کے بعد فلسطین ریاست کے شمالی علاقے سے لوگ جو کچھ اپنے ساتھ لے کر نکل سکتے تھے نکل پڑے ہیں اور اب وہ یہاں پہنچ رہے ہیں۔ جن کی گاڑیوں میں پٹرول تھا وہ گاڑیوں سے آئے، جن کو گھوڑا گاڑی میسر آئی وہ اس سے بھاگے اور جن کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا وہ پیدل ہی نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔اور یہاں آ کر جو کچھ انھوں نے دیکھا وہ یہ تھا کہ خان یونس کا شہر تو خود ہی اپنے گھٹنوں کے بل تھا جس کی آبادی راتوں رات دگنی ہو گئی تھی اور وہ بڑی تعداد میں انسانوں کے ہجوم کو سنبھالنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہے۔ہر کمرہ، ہر گلی، ہر محلہ مردوں، عورتوں اور نوجوانوں سے بھرا پڑا ہے۔ اور ان کے جانے کو کوئی اور جگہ تو ہے بھی نہیں۔حماس کا کہنا ہے کہ 11 لاکھ افراد میں سے چار لاکھ لوگ جو شمالی غزہ کو اپنا گھر کہتے ہیں وہ اسرائیل کی طرف سے نکل جانے کے حکم کے بعد گذشتہ 48 گھنٹوں میں صلاح الدین روڈ سے جنوب کی طرف جاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔اسرائیلی فوج کے ترجمان کے مطابق اس وقت شمالی غزہ سے پانچ لاکھ شہری نکل چکے ہیں۔زمین کی اس تنگ پٹی میں جہاں ہر طرف سے ناکہ بندی ہے اور جو باقی دنیا سے کٹی ہوئی ہے وہاں رہنے کے لیے تقریباً کچھ نہیں بچا ہے اور نہ ہی کوئی محفوظ جگہ یا ٹھکانہ ہے۔غزہ کے لوگوں کا بڑا عوامی سیلاب خان یونس پہنچ رہا ہے، یہاں پہنچنے والوں میں سے بہت سے لوگوں کے گھر تو پہلے ہی بمباری میں تباہ ہو چکے ہیں اور وہ اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں، ان کا سب کچھ ختم ہو گیا ہے، سب کے سب خوفزدہ ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ آگے کیا ہوگا لیکن پھر بھی وہ یہاں جمع ہو رہے ہیں۔

یہ شہر جو کہ عام طور پر چار لاکھ لوگوں کا گھر رہا ہے راتوں رات دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کا ٹھکانہ بن گیا ہے۔ شمال کے ساتھ ساتھ وہاں مشرق سے بھی آئے ہوئے لوگ ہیں جنھوں نے 2014 کی جنگ میں خوفناک نقصان اٹھایا تھا۔وہاں آنے والوں میں سے ہر ایک کو پناہ اور خوراک کی ضرورت ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کب تک وہ اس طرح کے حالات کا سامنا کرتے رہیں گے۔خان یونس کے قلیل وسائل تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ یہ وہ شہر ہے جو پہلے ہی اپنے کم وسائل کے باعث مشکلات سے دو چار ہے۔ اور لوگوں کی حالیہ نقل مکانی بہت زیادہ ہے۔ اتنی زیادہ ہے کہ شہر کا نظام کمزور پڑنے لگا ہے اور چیزیں بکھرنے لگی ہیں۔یہاں کا مرکزی ہسپتال پہلے سے ہی ضروری اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہے۔ یہاں نہ صرف شمال سے آنے والے بیمار و زخمی افراد داخل ہیں بلکہ اب تو یہ ایک پناہ گاہ بن گیا ہے۔پناہ گزین راہداریوں پر قطار میں کھڑے ہیں جبکہ ڈاکٹر اسرائیلی بمباری کا شکار نئے آنے والے زخمیوں کا علاج کر رہے ہیں۔ ایسے میں نئے لائے جانے والے زخمیوں کی مدد کے لیے پکار فضا میں گونج جاتی ہے۔

آپ کو بتادیں کہ غزہ کا بحران اپنے دسویں دن میں داخل ہو رہا ہے۔غزہ کے 2.3 ملین آبادی کے لیے خوراک، پانی اور تحفظ کے بڑھتے مطالبات کے جلو میں ایک طرف فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کی افواہیں گردش کر رہی ہیں جب کہ دوسری طرف صہیونی حکومت نے کہا ہے کہ اس کا نہ تو کسی سےمعاہدہ ہوا ہے اور نہ ہی وہ غیر ملکیوں کے بدلے میں غزہ کے محصورین کے لیے امداد دینے کے لیے تیار ہے۔سات اکتوبر سے جاری اسرائیلی کارروائیوں میں غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہداء کی تعداد 2750 ہو گئی ہے جب کہ 9700 زخمی ہوئے ہیں۔تازہ ترین پیش رفت میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ غزہ سے غیر ملکیوں کو نکالنے کے لیے فی الحال کوئی جنگ بندی نہیں ہے۔

نیتن یاہو کے دفتر نے مزید کہا کہ جنگ بندی نہیں ہے اور نہ ہی غیر ملکیوں کے اخراج کے بدلے غزہ میں انسانی امداد لے جانے کی اجازت ہے۔دوسری طرف حماس کے رہ نما عزت الرشق نے مصر کے ساتھ رفح کراسنگ کھولنے یا عارضی جنگ بندی کے بارے میں کسی بھی خبر کی تردید کی ہے۔العربیہ اور الحدث کے نامہ نگاروں نے جنوبی غزہ اور دونوں اطراف میں عارضی جنگ بندی کے معاہدے سے متعلق خبر کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنوبی غزہ میں غیر ملکیوں کو نکالنے اور رفح کراسنگ کے ذریعے امداد پہنچانے کے لیے پانچ گھنٹے کی جنگ بندی کی توسیع کی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی غزہ میں جنگ بندی مقامی وقت کے مطابق رات نو بجے نافذ ہوئی۔ العربیہ نامہ نگار نے مزید کہا کہ محدود جنگ بندی کے اعلان کے باوجود غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری جاری ہے جب کہ غزہ سے اسرائیل کی جانب میزائل راکٹ فائر کیے گئے۔حماس کے میڈیا آفس نے کہا کہ اسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کے معاہدے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے تاہم مصر کے دو سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ جنوبی غزہ میں جنگ بندی پر امریکا، اسرائیل اور مصر کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا جو کہ جی ایم ٹی کے مطابق صبح چھ بجے شروع ہوئی۔دونوں ذرائع نے مزید کہا کہ جنگ بندی کئی گھنٹوں تک جاری رہے گی، تاہم اس کی صحیح مدت ابھی واضح نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ تینوں ممالک نے ابتدائی طور پر ایک دن کے لیے آج پیر کو رفح کراسنگ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم اسرائیلی فوج اور اسرائیل میں امریکی سفارت خانے نے ابھی تک اس خبر کی تصدیق نہیں کی۔صبح سویرے غزہ کی پٹی کے مختلف حصوں پر اسرائیلی فضائی حملے دوبارہ شروع ہوئے۔ فلسطینی خبر رساں ایجنسی نے کہا کہ اسرائیلی طیارے نے درجنوں مقامات پر بمباری کی۔اس دوران اسرائیلی فوج نے تل الھویٰ میں سیکڑوں ٹن بارود گرایا گیا۔خبر رساں ایجنسی نے کہا کہ اسرائیل نے وسطی غزہ میں نصیرات کیمپ کو کئی چھاپوں کے ذریعے نشانہ بنایا۔ فلسطین ٹوڈے کی ویب سائٹ نے اطلاع دی ہے کہ آج جنوبی اور مغربی غزہ میں سول ڈیفنس کے دو ہیڈ کوارٹرز پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اس کے سات افراد شہید ہو گئے۔