نئی دہلی:مبلغ اسلام مولانا کلیم صدیقی کو بالآخر ڈیڑھ سال بعد جیل سے رِہائی مل گئی۔خیال رہے کہ ایک ماہ قبل الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے انھیں ضمانت دینے کا فیصلہ سنایا تھا، لیکن انھیں جیل سے باہر آنے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑا۔ داعئ اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی جوکہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کے خلیفہ و مجازبھی ہیں، نے ۵۸۹ دن قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ مولانا کلیم کی رِہائی سے متعلق جانکاری ان کے وکیل اسامہ ندوی نے سوشل میڈیا پر دی۔ انھوں نے اپنے ایک پوسٹ میں لکھا ’’الحمدللہ حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب جیل سے باہر آگئے ہیں۔ اس کامیابی پر مولانا مفتی ایڈووکیٹ اسامہ ادریس ندوی صاحب اور ان کی پوری قانونی ٹیم کو بہت بہت مبارک ہو۔‘‘
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق تین مئی کی شام ایڈووکیٹ اسامہ ندوی نے جیل کے باہر مولانا کلیم صدیقی کا استقبال کیا۔ مولانا کلیم صدیقی کو جبری تبدیلی مذہب کے کیس میں اترپردیش کی اے ٹی ایس نے میرٹھ سے ستمبر 2021 میں گرفتار کیا تھا۔ ان کے خلاف مختلف سنگین نوعیت کے مقدمات درج کیے گئے تھے اور پھر انھیں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ کئی مرتبہ ان کی ضمانت کی درخواست عدالت کے ذریعہ مسترد کردی گئی تھی، لیکن گزشتہ 5 اپریل کو انھیں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ سے مشروط ضمانت ملی تھی۔
واضح رہے کہ مولانا کلیم صدیقی کا نام محمد عمر گوتم معاملے کی جانچ کے دوران سامنے آیا تھا۔ اتر پردیش اے ٹی ایس نے مذہب تبدیلی کے الزام میں دو علماء محمد عمر گوتم اور مفتی قاضی جہانگیر قاسمی کو گرفتار کیا تھا۔ اس دوران پولیس کا کہنا تھا کہ یہ لوگ مبینہ طور پر مذہب تبدیلی کا ریکٹ چلا رہے تھے۔ اتر پردیش کے اے ڈی جی لاء اینڈ آرڈر پرشانت کمار نے خود اس بات کی تصدیق کی تھی۔ اسی تعلق سے مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری 22 ستمبر 2022 کو میرٹھ سے عمل میں آئی تھی۔ ان کی سرگرمیاں مشتبہ ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ مولانا موصوف نے ہزاروں غیر مسلموں کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا تھا۔ مولانا کلیم صدیقی مظفرنگر کے گاؤں پھُلت سے تعلق رکھتے ہیں اور شاہ ولی اللہ ٹرسٹ چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ گلوبل پیس فاؤنڈیشن کے بھی چیئرمین بھی ہیں۔خاص بات یہ بھی ہے کہ جب مولانا کوجبری تبدلی مذہب کے معاملہ میں گرفتار کیا گیا تھا،تب ملی تنظیمون کی اکثریت نے دو سطری بیانات جاری کرکے اس معاملہ پر تشویش تو ظاہر کی لیکن ان کی جلد رہائی ہو،اس کیلئے کسی بھی مسلم تنظیم نے اآگے بڑھنے اور قانونی مدد فراہم کرانے کی زحمت نہیں کی۔