نئی دہلی(یو این آئی) ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام آج اکادمی آفس نئی دہلی میں دو اہم پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ پہلے پروگرام ’میرے جھروکے سے‘ میں مشہور اردو شاعر و ادیب زاہد ابرول نے اردو کے ممتاز شاعر رباعیوں کے بادشاہ ستیہ پال اختر رضوانی کی حیات و خدمات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اختر رضوانی اردو کے ایسے شاعر تھے جنھوں نے مشکل حالات میں بھی اپنے شعری ذوق و شوق کو قائم رکھا اور تاحیات زبان و ادب کی بہترین خدمات انجام دیتے رہے۔
انہوں نے بتایا کہ اختر رضوانی نے ’ملاپ‘ لاہور سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ برٹش حکومت کے خلاف اپنی شعلہ بار نظموں کے سبب انھیں گرفتار کیا گیا۔ جب وہ رہا ہوکر لوٹے تو بھی انھوں نے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور وہ اپنی شعلہ بیانی سے ملک کے عوام میں آزادی کے تئیں جوش اور جنون پیدا کرتے رہے۔ زندگی اُن کی مسلسل تکلیفوں اور محرومیوں میں گزری لیکن عزم اور حوصلے کا دامن نہیں چھوڑا اور ادب کی خدمت کرتے رہے۔
زندگی کے آخری دور میں اپنی بیوی اور اکلوتے بیٹے کی موت نے انھیں توڑ کر رکھ دیا اور وہ دیوانگی کے عالم میں شہر در شہر بھٹکتے رہے۔ اُن کی موت کب اور کہاں ہوئی اس بارے میں بھی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔ زاہد ابرول نے بتایا کہ اختر رضوانی کی آزادی سے پہلے کے کلام دستیاب نہیں ہیں لیکن اُن کی رباعیوں پر مشتمل تین مجموعے ’فکر و جذبہ‘، ’رنگ و سرور‘ اور ’خد و خال‘ تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اختر رضوانی نے اپنے ذاتی دکھ درد کے علاوہ عوام کے درکھ درد کے بارے میں خوب لکھا اور ملک کو لوٹنے والے سیاستدانوں کو بھی اپنی شاعری میں طنز کا نشانہ بنایا۔ زاہد ابرول نے اپنے مضمون میں اس بات کا دُکھ ظاہر کیا کہ اتنے بہترین شاعر اور ادیب کو آج فراموش کردیا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں نئی نسل سے واقف کرایا جائے اور اُن کے کلام کو ازسرنو منظرعام پر لایا جائے۔
’ادبی فورم‘ کے تحت منعقدہ آج کے دوسرے پروگرام ’اردو شعری نشست‘ کی صدارت اردو کے ممتاز شاعر و صحافی اور ساہتیہ اکادمی اردو مشاورتی بورڈ کے کنوینر چندربھان خیال نے کی۔ اس نشست میں تحسین منور، کوثر مظہری، فریاد آزر اور عازم کوہلی نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ زاہد ابرول نے بھی اس محفل میں اپنے کلام سنائے۔ اس موقع پر شہر کی کئی ادب نواز حضرات شریک محفل تھے۔