محمدشرافت علی
جی- 20سربراہی اجلاس کیلئے دہلی دلہن کی طرح سج اور سنورکر پوری طرح تیار ہوچکی ہے۔ 9 اور 10 ستمبر کو منعقد ہونے والی اس چوٹی کانفرنس میں شرکت کیلئے زیادہ تر مہمانوں کی تشریف آوری بھی ہوچکی ہے،جبکہ کچھ ممالک کے سربراہانِ مملکت اگلی صبح دہلی وارد ہوجائیں گے۔اس پر وقار تقریب کو بہ حسن وخوبی انجام دینے کیلئے حکومت اور پولیس دونوں نے کمر کس لی ہے۔اس عظیم الشان تقریب کانتیجہ کیانکلے گا،یہ تو بعد میں پتہ چلے گا،سر دست دہلی کی جو تصویر ابھررہی ہے،وہ قومی دارالحکومت کو ظاہری لحاظ سے بدل دینے والی ضروردکھائی دے رہی ہے۔دوسرے لفظوں میں کہیں تو پوری دہلی نہ سہی،لیکن یہاں کا پوش علاقہ ’عالمی معیار کاشہر‘ بن چکاہے۔ دہلی کے جملہ اہم مقامات پر جی- 20 کے حوالے سے بڑے بڑے بینرزآویزاں ہیں، جوجی- 20 سربراہی اجلاس کی میزبانی پرہندوستان نے نازاں ہونے کی حقیقت کو بیان کررہے ہیں۔ اس اجلاس کے دوران راجدھانی دہلی میں دنیا بھر کی کئی بڑی شخصیات موجود ہوں گی،تاہم چین اور روس کے صدور کی عدم حاضری موضوع بحث بھی بن رہی ہے۔
ذہن نشیں رہے کہ اس سال دنیا کی 20 بڑی معیشتوں والے ممالک کے اس گروپ کی صدارت ہندوستان کوملی ہوئی ہے،لہٰذااس کانفرنس دہلی میں منعقد ہورہی ہے،جس کی کامیابی کویقینی بنانے کیلئے ہندوستان کی جانب سے وسیع انتظامات کئے گئے ہیں تاکہ دنیا بھر سے آنے والے مہمانوں کی میزبانی میں کسی قسم کی کوئی کمی باقی نہ رہ جائے۔ یاد رہے کہ اس سال کے آغاز سے ہی ہندوستان اس پورے ایونٹ کو کامیاب بنانے کیلئے مسلسل کوشش کر رہا ہے۔
یہ چوٹی کانفرنس ایسے وقت میں منعقد ہورہی ہے،جبکہ یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے روس اور مغربی ممالک کے درمیان فاصلے خاصے بڑھے ہوئے ہیں۔یہاںیہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ’فاصلے‘ بڑھنے کی وجہ سے دنیاکی بڑی مملکتوں کے درمیان محاذ آرائی والی صورتحال پائی جارہی ہے۔یوں تواس عالمی قطب بندی کے درمیان ہندوستان نے اپنی غیرجانبدانہ شبیہ کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے لیکن ہمسایہ ملک چین جس سے ہندوستان کے تعلقات ان دنوں اچھے نہیں ہیں۔چین اس عالمی گروہ بندی کے درمیان اس محاذ پر روس کے ساتھ کھڑا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب روسی صدر ولادیمیر پوتن اور چینی صدر شی جن پنگ نے جی -20 کانفرنس میں شرکت کی غرض سے ہندوستان نہ آنے کا فیصلہ کیا توکئی گوشوں سے یہ سوال اٹھنے لگا کہ کیا جی- 20 سربراہ اجلاس حصول مقصد کے حوالے سے کامیابی سے ہمکنار ہوسکے گا؟ حالانکہ مذکورہ دونوں قائدین نے اس چوٹی کانفرنس میں عدم شرکت کا فیصلہ کیا ہے،لیکن دونوں ممالک کے نمائندے اس کانفرنس کو زینت بخشیں گے،لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چین اور روس اس کانفرنس سے لا تعلق ہے۔البتہ یوکرین جنگ کے سبب پیدا شدہ صورتحال میں اس بات کی بہ ظاہرکم ہی امید ہے کہ دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے اس اجلاس میں کسی ایجنڈے پر اتفاق رائے کی صورت پیدا ہویاشرکاء کی جانب سے کسی قراردادکوبہ اتفاق رائے منظوری حاصل ہو۔اس حوالے سے میزبان ملک ہندوستان کی حکمت عملی کیا ہوگی، یہ دیکھاجانا اہم ہوگا۔یہ اس وجہ سے بھی،کیونکہ روس اور یوکرین کی جنگ کے درمیان نہایت قدم اٹھانے کی وجہ سے عالمی سطح پرہندوستان کی غیر جانبدارانہ شبیہ بڑی حد تک برقراررہی تھی۔یوں بھی روس اور ہندوستان کے سابقہ دیرینہ تعلقات کی روشنی یہ خوش فہمی پالنے کی گنجائش موجود ہے کہ روس اپنے قومی مفادات کے تحفظ کاخیال رکھتے ہوئے اس کانفرنس کی میز سے جو کچھ بھی موقف اختیار کرے گا،وہ کم از کم ہندوستان کے قومی مفادات کے برخلاف نہیں ہوگا۔البتہ چین کے تعلق سے ایسی کوئی رائے قائم کرنے کی گنجائش موجود نہیں ہے کیونکہ وہ دن گئے جب چینی صدر شی جن پنگ کو ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی جھولاجھلایا کرتے تھے!۔اب دونوں کے درمیان رشتوں میں تلخی صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ چنانچہ ایسے میں پوتن اور شی کی عدم موجودگی کااثر اس کانفرنس پر کس حد تک ہوگااور چین و روس کے نمائندوں کی موجودگی میں اس اجلاس کے دوران مختلف ایشوز پرمشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کے حوالے سے اتفاق رائے کی صورت کہاں تک پیدا ہوپائے گی،یہ دیکھنے کی بات ہوگی۔یقینایہ ہندوستان کی کوشش ہوگی کہ وہ جی- 20 اجلاس کے شرکاء کو اس بات پرآمادہ کرے کہ وہ مشترکہ موقف اختیار کرنے پر رضامندہوں۔ چونکہ یہ کانفرنس ہندوستان کی صدارت میں ہو رہی ہے،لہٰذااگر ایسا کچھ ہوا تو اس کے ذریعہ ہندوستان عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو بہترین بنانے میں کامیاب ہوگااور وزیر اعظم کا یہ جملہ بھی بامعنی بن جائے گا کہ’ہندوستان وشوگرو‘بن رہاہے،مگر پڑوسی ملک چین بالخصوص ایسا ہونے دے گا،یہ سب سے بڑاسوال ہے۔بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ اگر یہ کانفرنس معنوی لحاظ سے نتیجہ خیز اور کامیاب ہوگئی تواس کا سیدھا اور واضح مطلب یہی نکلے گا کہ دنیا ہندوستان کو عالمی سطح پر جنوبی ایشیا کا لیڈر تصور کرلے گی،جو ہمسایہ ملک یعنی چین کیلئے’قابل برداشت‘ بالکل بھی نہیں ہوگا۔بعض عالمی میڈیا کایہ خیال ہے کہ چین کے صدر نے جی 20-اجلاس میں شرکت نہ کرکے درحقیقت دنیا کی 20 بڑی معیشتوں والے ممالک کے اس گروپ کے قد کو گھٹانے کی کوشش کی ہے،حالانکہ یہ خیال100فیصدغلط ہے۔ ذہن نشیں رہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب چینی صدرشی جن پنگ اقتدار سنبھالنے کے بعد کسی جی- 20 چوٹی کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔
بہرحال! 80فیصدعالمی بازار تک رسائی رکھنے والے اس بڑے اقتصادی فورم کی حیثیت ایک دو ملکوں کے صدورکی عدم شرکت سے نہ کم ہوسکتی ہے اور نہ ہی سالانہ اجلاس کا وقار اس سے مجروح ہوسکتا ہے،یہ ایک مسلمہ سچائی ہے۔ دنیا کی تقریباًدوتہائی آبادی کی نمائندگی کرنے والے اس مضبوط گروپ میں امریکہ،روس اور چین کے علاوہ میزبان ملک ہندوستان تو شامل ہے ہی،ساتھ ہی ساتھ ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل،کینیڈا،فرانس،جرمنی،انڈونیشیا،اٹلی،جاپان،ری پبلک آف کوریا،میکسیکو،سعودی عربیہ، جنوبی افریقہ، ترکیہ،برطانیہ اوریوروپی یونین بھی گروپ آف 20-کاحصہ ہے،لہٰذایہ اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ اس فورم کی عالمی صورتحال کیا ہے۔اقتصادی تعاون اور مالی استحکام جی- 20 کاخاص ایجنڈہ رہاہے، جس پرچوٹی کانفرنس میں ہر سال شرکاء کے درمیان نتیجہ خیزگفت و شنیدہواکرتی ہے۔چونکہ اس گروپ کی صدارت تبدیل ہوتی رہتی ہے، لہٰذاسالانہ چوٹی کانفرنس کا مقام بھی بدلتارہتا ہے۔پچھلے سال جی- 20 کی صدارت انڈونیشیا کے پاس تھی،فی الوقت ہندوستان عہدہئ صدارت پر براجمان ہے،آئندہ برس برازیل کو اس ’کرسی‘ پر بیٹھنا ہے۔بہرحال یہ ہندوستان کیلئے یہ فخرکا مقام ہے کہ اسے اس پروقار تقریب کی میزبانی کا شرف حاصل ہورہاہے۔اگراپنے مقصد میں یہ کانفرنس کامیاب رہی اور اقتصادی تعاون و مالی استحکام کے تعلق سے کچھ قابل قدر پیش رفت دیکھنے کو ملی تو یقینااس سے وطن عزیزکااقبال بلند ہوگابصورت دیگرتاریخ اس کانفرنس کو اور اس کی تیاریوں کو کس طرح یاد کرے گی،یہ ہر ذی شوراچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔
urdu.author@gmail.com