قاہرہ: مصری حکام نے فلسطینیوں کی بڑی تعداد کو مصر میں بطور پناہ گزین قبول کرنے سے انکار کردیاہے۔عالمی میڈیا کے بقول مصری حکام کا کہنا ہے کہ ایک بار ایسا کرلیا گیا تو ریاست کے حصول کا فلسطینیوں کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ اسرائیلی فوج مصر سے مطالبہ کرچکی ہے کہ وہ فلسطینی سویلینز کو صحرائے سینا میں بسائے۔ مصر کے سابق وزیر خارجہ محمد العرابی نے اس پر کہا کہ اگر ایسا کیا تو لڑائی بند ہونے کے بعد اسرائیل ان فلسطینیوں کو واپس نہیں آنے دے گا۔ادھرمصری وزیرِ خارجہ سامح شکری نے کہا کہ اسرائیلی حکومت نے تاحال کوئی ایسا مؤقف اختیار نہیں کیا ہے جس کے تحت مصر اور غزہ کی پٹی کے درمیان رفح سرحدی گذرگاہ کو کھولنے کی اجازت دی جائے۔شوکری نے غزہ میں فلسطینی عوام کو درپیش صورتحال کو "خطرناک” قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب سے تنازع شروع ہوا ہے مصر کا مقصد رفح گذرگاہ کو فعال رکھنا ہے۔غزہ کے واحد داخلے کے ذریعے امداد کی فراہمی اور محدود انخلاء کی تقدیر پر پیر کے روز سوالیہ نشان تھا جب مصری ذرائع نے کہا کہ عارضی جنگ بندی ہو گئی تھی لیکن اسرائیل اور حماس نے کہا کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے اتوار کو قاہرہ میں کہا تھا کہ مصر کے جزیرہ نما سینائی اور غزہ کے درمیان رفح گذرگاہ کو دوبارہ کھول دیا جائے گا اور امداد کی فراہمی کے لیے اسرائیل کے ساتھ ایک طریقۂ کار پر اتفاق کیا گیا ہے۔
حماس کے عسکریت پسند گروپ کے حملے کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے شدید بمباری اور ناکہ بندی شروع کرنے کے بعد سے غزہ کے 20 لاکھ سے زائد باشندے محاصرے میں ہیں۔ غزہ کے تقریباً 600,000 باشندے بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ رسد ختم ہو رہی ہے۔مصر نے کہا ہے کہ رفح کو بند کر دیا گیا ہے لیکن فلسطین کی جانب اسرائیلی حملوں نے اسے ناکارہ بنا دیا ہے۔دو مصری سکیورٹی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ جنوبی غزہ میں کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی جنگ بندی پیر کو 0600 بجے جی ایم ٹی شروع ہونے پر اتفاق کیا گیا تھا تاکہ امداد کے داخلے کے ساتھ ساتھ غزہ سے غیر ملکی پاسپورٹ کے حامل افراد کے محدود انخلاء کی اجازت دی جاسکے۔تاہم اسرائیل نے اس کی تردید کی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر سے ایک بیان میں کہا گیا ہے، "غیر ملکیوں کو نکالنے کے بدلے غزہ میں فی الحال کوئی جنگ بندی اور انسانی امداد نہیں ہے۔”
حماس کے اہلکار عزت الرشیق نے بھی رائٹرز کو بتایا کہ میڈیا کی ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں تھی کہ رفح دوبارہ کھل رہا تھا یا جنگ بندی ہوئی تھی۔مصری سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سے تصدیق ملنے کے بعد اسرائیلی انکار سے پریشان تھے۔رفح کے ایک ذریعے نے بتایا کہ پیر کو گذرگاہ پر کوئی بمباری نہیں ہوئی تھی اور گذرگاہ کا مصری حصہ تیار تھا۔وہاں کے دو ذرائع اور ایک عینی شاہد نے رائٹرز کو بتایا کہ پیر کو مصر کے قریبی قصبے العریش میں این جی اوز اور متعدد ممالک کی طرف سے سینکڑوں ٹن امداد کے ٹرک غزہ میں داخل ہونے کی اجازت کے منتظر تھے۔رائٹرز کی ویڈیو میں اقوامِ متحدہ کے پرچم والے ایندھن کے ٹرک اسرائیل کے زیرِ قبضہ کریم شالوم گذرگاہ کے ذریعے غزہ سے مصر کے لیے روانہ ہوتے نظر آ رہے تھے۔اسی درمیان میڈیا رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مصر کی جانب سے رفاہ سرحد نہ کھولنے کی وجہ سے غزہ میں انسانی امداد بھی اب تک نہیں پہنچ سکی۔ جنوبی لبنان میں اسرائیلی بمباری کے وقت کے مناظر بھی جاری کردیے گئے، تین روز قبل کی گئی بمباری میں غیر ملکی خبر ایجنسی کا صحافی جاں بحق دیگر 6 صحافی زخمی ہوئے تھے۔