نئی دہلی خورشید اکبر کا شمار ہمارے عہد کے اہم شاعروں میں ہوتا ہے۔ان کے لہجے کی شناخت دُور سے کی جاسکتی ہے ۔ادب میں خورشید اکبر بہ حیثیت شاعر، نقاداور ادبی صحافی کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔یہ ایک بہترین انسان بھی ہیں۔ دہلی آمد پر ان کے اعزاز میں اس جلسے کا انعقادکیا گیاجس کی مجھے بے حد خوشی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار صدرِ اجلاس پروفیسر خالد محمود نے اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے زیرِ اہتمام مورخہ ۲ ؍ اگست ۲۰۲۳ء کو ’خورشید اکبر سے ایک ملاقات‘ پروگرام کے موقع پر کیا۔
پروفیسر شہزاد انجم اعزازی ڈائرکٹر، اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ نے تمام مہما نوں اور شرکا کا استقبال کرتے ہوئے جناب خورشید اکبر کی شخصیت اور شاعری پر بھرپورروشنی ڈالی۔انھوںنے اپنی گفتگو میں کہا کہ خورشید اکبرکی شاعری ان کی شخصیت کا آئینہ ہے۔ ان کی شاعری میں وہ جدو جہد نظر آتا ہے جو ان کی زندگی کے مختلف پہلوئوں میں موجود ہے۔ اردو کے تئیں ان کی خود سپردگی قابل ستائش بھی ہے اور لائقِ تقلید بھی۔اس موقع پرپروفیسر کو ثرمظہری نے خورشید اکبر کی شاعری پر نہایت جامع گفتگو کی۔ انھوںنے کہا کہ خورشید اکبر کی شاعری کا اپنا مخصوص اسلوب ہے۔ ان کی شاعری کا رنگ مختلف و منفرد ہے جو بہ آسانی پہچاناجاسکتا ہے۔ یہ کبھی تقلید کے قائل نہیں رہے۔
پروگرام کی نظامت ڈاکٹر واحد نظیر نے کی انھوںنے عظیم آباد میں خورشید اکبر کی ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے کئی واقعات کا ذکر کیا۔ اس پروگرام میں بہ حیثیت مہمانِ خصوصی جناب خورشید اکبر اور بہ حیثیت مہمانِ اعزازی پروفیسر شہپر رسول شریک ہوئے۔ اس موقع پر ایک خصوصی شعری نشست کا بھی اہتمام کیا گیا ۔جس میں خالد محمود، خورشید اکبر، شہپر رسول ، سہیل احمد فاروقی، کوثر مظہری، عبدالنصیب خان، واحد نظیر، خالد مبشر، عادل حیات، خان محمد رضوان اور سفیر صدیقی نے اپنا کلام پیش کیا۔شعرا کے منتخب اشعار درج ذیل ہیں:
بہت خاموش جو بیٹھا ہوا ہے
وہ یکجا ہے مگر بکھرا ہوا ہے
(خالد محمود )
جس کو فلکِ پیر حریصانہ اُٹھالے
لازم نہیں درویش وہی دانہ اُٹھالے
(خورشید اکبر)
سفیدی اور سیاہی ایک ہوجائیں گے ایسے
یہ جو کچھ ہورہا ہے یہ تو سوچاہی نہیں تھا
(شہپر رسول)
یہ مرے عہد کی پہچان ہے آشوبِ نظر
چھاگئے شعبدہ گر اہلِ نظر کچھ بھی نہیں
(سہیل احمد فاروقی)
سب قعر غلامی میں پڑے چیخ رہے ہیں
آقا کا تماشا ہے یہ آقا کا تماشا
(کو ثر مظہری)
پل صراط راہوں میں ہاتھوں میں عصا ہوںگے
پیچ دار ندیاں اب راستہ نہیں دیں گی
(عبدالنصیب خان)
حرف تفصیل کے اشارے تھے
کیا ہنر اس کے اختصار میں تھا
(واحد نظیر)
حصارِ لفظ سے باہر فقط یہ حسن نہیں
ہمارا عشق بھی فرہنگ کی تلاش میں ہے
(خالد مبشر)
بس اک نظر ملی تھی فقط اتنا یاد ہے
حالت ہے وجد کی، تِر اشیدا نشے میں ہے
(عاد ل حیات)
ہم تو اپنے قد کے برابر بھی نہ ہوئے
لوگ نہ جانے کیسے خدا ہوجاتے ہیں
(خان محمد رضوان)
سرپٹکتے ہیں کہ قائم رہے حرکت کا بھرم
ورنہ ہم وحشی صفت واقعی پاگل ہوجائیں
(سفیر صدیقی)
نشست کے آخر میں محترمہ ڈاکٹر حناآفریں نے تمام مہمانوں اور شرکا کا شکریہ ادا کیا ۔اس پروگرام کے انعقاد میں اکادمی کے اسٹاف ڈاکٹر نوشاد عالم، محترمہ شائستہ صفدر ، جناب راغب علی جمالی، جناب تحسین خان پیش پیش رہے۔